Monday 19 February 2018

دیکھ کیسی قیامت سی برپا ہویی ہیں آشیانوں پر اقبال جو لوہو سے تعمیر ہویے تھے پانی سے بہے گیے ۔

دیکھ کیسی قیامت سی برپا ہویی ہیں آشیانوں پر اقبال
جو لوہو سے تعمیر ہویے تھے پانی سے بہے گیے ۔

پہلگام 19 ماہ فروری 2018: آج میرا خون کھل گیا دیکھ کر جب پہلگام ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین ان سٹالز کو ٹوڈ رہیے تھے  مجھے ایسا محسوس ہوا  جیسے  مجھے اور میرے پورے شریر کو  یہ لوگ بےدردی سے  تہس نہس کر رہیے تھے اور دکھ  اور صدمے سے کم سمہا وہاں میرے لیے یہ سب دیکھ کر نہیں تھا ۔آپ سب جانتے ہیں چند دن پہلے ان سٹالز کو بڑھی محنت اور کاوش سے اچھا خاصا پیسہ لگا کر بنایا گیا تھا اور وہ پیسہ یہاں کے غریب عام انسان کا ٹیکس سے دیا ہوا پیسہ ہیں جس پر اسی غریب انسان کا حق ہوتا ہے  جس پیسے  سے عام انسان کی سڈک پانی اور صحت کی ضروریات پوری ہونی چاہیے تھی۔ ہم مانتے  یہاں  اس سب کی بھی ضرورت ہوتی ہیں اگر آپ بہتر سیاحت چاہتے ہیں مگر اس کا بلکل نہیں یہ مطلب آپ پیسہ لگا کر یہ ٹوڈ فوڈ کر کے غریب عوام کے پیسے کا یہ حشر کرتے اگر کل ہمیں ایسے ایونٹ کی ضرورت ہوتی تھی ان سٹالز کو ہم وہاں بھی کام میں استمال کر سکھتے تھے مگر یہاں اس سب سے بدل  کر ہوا جو ایک صدمہ سے کم نہیں ہیں ۔
آپ سب دوستوں کو میں بتانا چاہتا ہو ہم نے چیف ایگزیکٹوں افسر پہلگام ڈویلپمنٹ اتھارٹی پہلگام ،ڈائریکٹر ٹورازم کشمیر اور ٹورازم منسٹر کی ذہن میں اس بات کو اجاگر کیا تھا کی فیسٹیول اختتام ہونے پر ان سارے خوبصورت سٹالز کو جو یہاں کی ایک  بیکار پارکنگ چند سال پہلے ہوٹل پورنما کے پاس بنایی گیی ہیں جو کسی بھی کام کے استمال میں نہیں لایی جاتی جو بیکار پڑھی ہیں وہاں ان سب سٹالز کو نسب کیا جایے اور یہاں دہلی ہاٹ طرز پر پہلگام ہاٹ کا قیام عمل میں لیا جایے جس میں کشمیری دستکاری سے لیکر ہر چیز دستیاب ہو جس سے سیاحت سے لیکر عام انسان کو ہر چیز با آسانی مل سکے اس کے علاوہ روزگار کے موقے دستیاب ہوسکھتے تھے اور ٹورازم کو بھی اچھی خاصی آمدنی مل سختی تھی ۔مگر ہم سمجھ نہ سکھے ک  اگر چیف ایگزیکٹوں افسر پہلگام ڈویلپمنٹ اتھارٹی پہلگام ،ڈائریکٹر ٹورازم کشمیر نے ہمیں بھروسہ دیا تھا کی ان سٹالز کا ایک بہتر بازار بنایا جایے گا  یہاں پہلگام۔میں ہی  مگر آخر وقت میں کس کے دباو میں آکر ان کو ٹوڈ دیا گیا اگر بازار بھی نہیں بنایا جاتا تھا کم سے کم کسی جگہ سمبال کر رکھتے تاکی عوام کے سرمایا کی قدر ہوتی مگر  یہ سب سوچ کر انسان یہی۔سوچ سکتا کی نہیں یہاں کے عام انسان کے محنت کے پیسے کو کوئی قدر کی جاتی ہیں اپنے ذاتی مفادات کے خاطر ۔۔۔۔۔ہم اس سب کی سخت مذمت کرتے ہے  اور آنے والے دنوں میں ہم( ار ۔ ٹی۔ آیی ) داخل کر کے اصل حقایق جانے کی کوشش کرے گے ۔

مشتاق پہلگامی
ہمالین ویلفیئر ارگنزیشن ۔ ایچ ۔ دبلویو ۔او

No comments:

Post a Comment